از قلم : مولانا محمد غیاث الدین اشرفی کورٹلوؔی
( فاضل ادارہ اشرف العلوم ، حیدرآباد ، انڈیا)
ایک انسان کے اندر جب احساسِ شعور بیدار ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں کئی طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک اہم سوال جو کسی بھی انسان کو بے چین کردیتا ہے وہ یہ کہ ’’جس مذہب پر وہ عمل پیرا ہے، جس مذہب کا وہ نام لیوا ہے کیا وہی حق ہے؟ کیا اس کے سواء تمام مذاہب باطل ہیں؟ ‘‘۔ راقم سطور کو یہی سوال بچپن سے بے چین کرتا تھا کہ کیا اسلام ہی برحق مذہب ہے؟ کیا اسلام کے علاوہ تمام مذاہب غلط ہیں؟ اگر دوسرے مذاہب میں کوئی حق پر ہو تو میرا انجام جہنم ہوگا؟ اسی سوال نے راقم السطور کو اسلام کی صداقت پر غور کرنے پر مجبور کیا۔ ہماری اس تحریر کا محرک بھی ہمارے ایک ساتھی کا یہی سوال ہے کہ کیا اسلام ہی برحق مذہب ہے؟ ایمان کا اصل تقاضہ تو یہی ہے کہ ایسے سوالات پر توجہ نہ دی جائے بلکہ صدقِ دل سے اسلام کے برحق ہونے کا یقین کیا جائے مگر اگر کوئی اطمینانِ قلب کیلئے اس پر غور کرے تو یہ بھی جائز ہے بلکہ بہتر ہے۔ اس تحریر کو پڑھنے سے ان شاء اللہ نہ صرف اہل ایمان کو اطمینانِ قلب حاصل ہوگا بلکہ غیرمسلم بھائیوں کو دعوتِ اسلام دینے کے لئے ایک بہترین مواد بھی ہاتھ آئے گا کیونکہ اکثر غیرمسلموں کو جب اسلام کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ اکثر یہی سوال کرتے ہیں کہ اسلام ہی سچا مذہب کس طرح ہے؟ الغرض اس تمام تحریر کا محور یہی دو باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں کو اطمینانِ قلب حاصل ہو، دوسرا یہ کہ غیرمسلموں کو ہم اسلام کی صداقت سمجھا سکیں۔ صداقتِ اسلام کو سمجھنے کیلئے ہم چند اہم نکات پر بحث کریں گے جنہیں اسلام کی صداقت کے بنیادی دلائل کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
۱۔داعی اسلام (محمد ؐ) کا کردار
اسلام کی صداقت کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے اسلام کے داعی ٔ اول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعلیٰ کردار پر غور کرنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیارت مبارکہ و سیرت طیبہ سے جو واقف ہوگا وہ یہ اچھی طرح جانتا ہوگا کہ آپؐ نے بچپن سے لیکر دعویٰ نبوت تک یعنی چالیس سال تک کبھی جھوٹ نہیں کہا۔ کبھی کسی کو آپؐ نے دھوکہ نہیں دیا۔ آپؐ بہت امانتدار تھے، دیانتدار تھے۔ غرض آپؐ کا کردار بچپن ہی سے اعلیٰ و بالا اور ہرطرح کے انسانی عیوب سے پاک تھا۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اتنے سچے تھے کہ مکہ کے لوگ آپؐ کو ’’صادق‘‘ کہتے تھے اور اتنے زیادہ امانتدار تھے کہ ’’امین‘‘ کے لقب سے مقلب تھے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی جب سب سے پہلے علی الاعلان اسلام کی دعوت دی اور صفا کی وادی سے حق کی آواز بلند ہوئی اس وقت بھی آپؐ نے سب سے پہلے اپنے کردار کو پیش کیا۔ حضور ﷺنے صفا پہاڑی سے آواز لگائی ’یاصباحاہ‘‘ اس آواز کو سن کر تمام شہر کے لوگ جمع ہوگئے۔ آپؐ نے ان لوگوں سے پوچھا ’’اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر ہے، جو صبح یا شام کسی بھی وقت تم پر حملہ ور ہوگا تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ سب نے کہا ’’ہاں‘‘ کیونکہ ہم نے آپؐ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمنے دعوتِ توحید پیش کی۔
قارئین کرام !
ذرا اس واقعہ پر بھی غور کیجئے۔ جب شاہِ ہَرقل کے دربار میں اسلام کی دعوت، حضورؐ کے دعوتی خط کے ذریعہ پہنچتی ہے، تو وہ اپنے درباریوں کو حکم دیتا ہے کہ اگر حجاز کے تاجر کہیں ملیں تو ان کو دربار میں بلواؤ۔ عجیب اتفاق کہ اس کام کے لئے وہ شخص ہاتھ آیا جو اس وقت اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ یعنی حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ابوسفیانؓ ہَرقل کے دربار میں حاضر کئے گئے۔ ہَرقل نے ان سے حضورؐ کے تعلق سے مختلف سوالات کئے۔ ایک سوال یہ کیا کہ جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) کبھی تم لوگوں کو اس کے جھوٹ بولنے کا بھی تجربہ ہوا ہے؟ ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو اس وقت اسلام کے سب سے سخت مخالف تھے) انہوں نے کہا ’’نہیں‘‘۔ ایک دشمن وہ بھی کٹر دشمن۔ اس کی زبان سے بھرے دربار میں اتنی سچی شہادت کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی۔’’بچپن سے لیکر چالیس سال کی عمر تک، چھوٹی سی چھوٹی بات میں بھی جھوٹ نہیں کہتے، جن کے جھوٹ کا کسی کو کبھی تجربہ نہ ہوا ہو، جن کے جانی دشمن بھی ان کی سچائی اور دیانتداری کے معترف ہوں۔ وہ خدا کے معاملے میں کیسے جھوٹ کہہ سکتے ہیں۔ جنہوں نے کبھی کسی جانور کو بھی دھوکہ نہیں دیا، وہ مذہب اور دین کے معاملے میں ہزاروں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں، اربوں انسانوں کو دھوکہ کس طرح دے سکتے ہیں؟ ہمارے خیال میں یہی ایک بات اسلام کی صداقت و حقانیت کے ثبوت کیلئے کافی و شافی ہے۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسلام کو جہلائے عرب کے سامنے پیش کیا تو کیا نعوذباللہ حضور ﷺ کو ان سے کوئی ذاتی غرض وابستہ تھی؟ نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ اسی دعوتِ اسلام کے جرم میں وہی لوگ جو آپ سے محبت کا دم بھرتے تھے، اچانک جانی دشمن بن گئے۔ مارنے مرنے پر تُل گئے۔ آپؐ کو طرح طرح کی تکالیف دیں، اسی پر بس نہیں کیا بلکہ قتل تک کی سازشیں کیں۔ بالآخر آپؐ نے اپنے محبوب وطن مکتہ المکرمہ سے مدینہ المنورہ ہجرت کی مگر ان بدبختوں نے وہاں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ جنگوں کا طویل سلسلہ شروع کردیا، کبھی بدر و احد میں مشرکوں کا سامنا تھا تو کبھی خیبر میں یہود کا۔ ان جنگوں میں مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا یہاں تک کہ حضور ﷺکے چہیتے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شہید ہوگئے۔ کئی صحابہ نے جام شہادت نوش فرما لیا۔ حضورؐ کے گھرانے تک کو تکلیف اٹھانی پڑیں۔ ان باتوں کو جاننے کے بعد کوئی منصف مزاج شخص ہرگز یہ خیال نہیں کرسکتا کہ نعوذ باللہ دعوتِ اسلام سے حضور ؐ کی کوئی ذاتی غرض وابستہ تھی۔
پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھئے کہ حضور ﷺ کی اس دعوت سے برگشتہ کرنے کے لئے، کفار نے ایک حربہ یہ بھی اپنایا کہ سردارِ مکہ، عتبہ کو آپؐ کے پاس بھیجا، عتبہ نے کہا ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ! اگر تم مال و دولت چاہتے ہو تو ہم تمہیں مکہ کا سب سے بڑا مالدار بنادیں گے، اگر سرداری چاہتے ہو تو سردار بنادیں گے، اگر کسی خوبصورت عورت سے نکاح کرنا چاہتے ہو تو عرب کی حسین و جمیل عورت سے تمہارا نکاح کردیں گے‘‘۔ بس تم ہمارے معبودوں کو بُرا بھلا کہنا چھوڑ دو۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان سے اس نے وہ جواب سنا جس کی اس کو ہرگز توقع نہ تھی۔ آپؐ نے کفار کی ان شرطوں میں سے کسی بھی شرط کو قبول نہیں کیا بلکہ اپنی دعوت پر قائم رہے۔ اگر کوئی ذاتی غرض ہی وابستہ ہوتی تو ضرور ان میں سے کسی ایک کو قبول کرلیتے مگر حضور ﷺنے ایسا نہیں کیا۔ سرداران قریش نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اسلام کی دعوت سے روکنے کے لئے ایک طریقہ یہ بھی اپنایا کہ آپؐ کے چچا ابوطالب کے پاس چند کافر سردار آئے اور کہا ’’ابوطالب! تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے، تم اسے روکو، ورنہ پھر ایک فیصلہ کن جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ، ابوطالب نے یہ سنا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بلا بھیجا اور کہا بھتیجے! مجھ بوڑھے پر اتنا زیادہ بوجھ نہ ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکو، چچا کی یہ بات سن کر آپؐ کی آنکھ بھر آئیں۔ آپؐ نے اس وقت ارشاد فرمایا ! ’’چچاجان، اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند بھی رکھ دیں، تب بھی اپنی اس دعوت سے باز نہ آؤں گا یا تو اللہ کا دین غالب ہوگا یا اس راہ میں اپنی جان دے دونگا‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دنیاوی مفاد سے بے نیاز ہوکر، تکالیف پر تکالیف برداشت کرتے ہوئے پوری استقامت اور ہوشمندی سے اسلام کی دعوت دینا، اسلام کے حق ہونے کی روشن دلیل ہے۔
۲۔صحابہ کا حیرت انگیز روحانی انقلاب:
اسلام کی صداقت کو سمجھنے کے لئے اس پہلو پر بھی غور کیجئے کہ جو اس مذہب پر اول ایمان لائے تو آخر ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں؟ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے ایسی قوم کے سامنے پیش کی گئی جو جہالت اور ظلم میں حد سے زیادہ بڑھی ہوئی تھی گویا جہالت اور بت پرستی میں ساری دنیا کی استاد تھی۔ یہاں پرحضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ تاریخی مکالمہ نقل کرنا بے حد مفید ہوگا جو انہوں نے شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں کیا تھا، جس میں انہوں نے دورجہالت کا عجیب اور مکمل نقشہ کھینچا۔
حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان مہاجرین میں سے تھے جنہوں نے مکہ سے دین و ایمان بچانے کے لئے حبشہ ہجرت کی تھی مگر مکہ کے کافروں کو یہ بات ہضم نہ ہوئی کہ مسلمان دوسرے ملک میں چین سے سانس لے سکیں۔ اس لئے انہوں نے اپنے دو سفیروں کو ہدائے اور تحفوں کے ساتھ شاہ حبشہ کے پاس روانہ کیا۔ وہ سفیر حبشہ پہنچے اور نجاشی کے دربار میں جاکر کہا ’’بادشاہ سلامت! ہمارے یہاں سے چند نوجوان بے دین ہوکر آپ کے ملک میں آ گئے جنہوں نے اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دیا ہے اور آپ کا مذہب بھی قبول نہیں کیا۔ ہم لوگوں کو ان کے سرپرستوں نے بھیجا ہے کہ ہم ان کو واپس لے آئیں۔ اس لئے آپ انہیں ہمارے ساتھ واپس مکہ روانہ کردیں۔ نجاشی نے مسلمانوں کو دربار میں بلوا کر پوچھا ’’یہ جو کہہ رہے ہیں کیا وہ سچ ہے۔ حضرت جعفر ؓ نے مسلمانوں کی طرف سے تقریر کی اور کہا
’’اے بادشاہ، ہم مشرک تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاری کرتے تھے، پڑوسیوں کو ستاتے تھے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، زورآور کمزوروں کو کھا جاتا تھا۔ اتنے میں ہم میں ایک شخص پیدا ہوا جس کی بزرگی، سچائی اور ایمانداری سے ہم واقف تھے، اس نے ہم کو سچے دین (اسلام) کی دعوت دی اور بتایا کہ ہم بتوں کا پوجنا چھوڑدیں، سچ بولیں، ظلم سے باز آئیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، پڑوسیوں کو آرام دیں، پاک دامن عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں، نماز پڑھیں، روزے رکھیں، خیرات دیں، ہم نے اس شخص کو خدا کا پیغمبر مانا اور اس کی باتوں پر عمل کیا۔ اس پر ہماری قوم ہماری دشمن ہوگئی اور ہم کو مجبور کرتی ہے کہ ہم اس دین اور پیغمبر کو چھوڑ کر اس پہلی گمراہی میں رہیں‘‘۔
اس مکالمے سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا اس وقت سماج اور انسانوں کی کیا حالت تھی۔ ایسے ماحول اور ایسے لوگوں کے سامنے اسلام پیش کیا گیا۔ جب انہوں نے اسے قبول کیا اور اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی گذارنے لگے تو ان کی زندگیوں میں وہ حیرت انگیز انقلاب رونما ہوا جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے۔
وہی لوگ جو بتوں کے پجاری تھے، ایک اکیلے اللہ کے عبادت گزار بن گئے۔ جو ظالم تھے وہ مہربان ہوگئے، جو فریبی تھے، دیانتدار بن گئے، جو بخیل تھے وہ سخی ہوگئے، جو قاتل تھے وہی دوسروں کی دفاع میں شہید ہونے لگے، جن معصوم بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا ان کی پرورش کو سرمایہ فخر سمجھا جانے لگا۔ ان سے محبت کی جانے لگی۔ بیویوں کو ان کا مقام ملا، ماں کی خدمت دارین کی سعادت قرار پائی، باپ جنت کا دروازہ کہلایا۔یہ ساری باتیں پکار پکار کر اعلان کرتی ہیں کہ اسلام ہی وہ واحد سچا مذہب ہے جس نے ان لوگوں کے قلوب کو دھوکر پاک کردیا تھا، ان کی روحوں کو پاکی اور بالیدگی عطا کی تھی، جس نے ان کے ظاہر اور باطن کو سنوار دیا تھا۔
۳۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اسلام کی خاطر سختیاں برداشت کرنا :
پھر یہ بات بھی قابل غور کہ اسی اسلام کو تسلیم کرنے کے نتیجہ میں ان حضرات کو ستایا گیا، ایسی ایسی تکالیف دی گئیں کہ سہنا تو درکنار بیان کرنے کے لئے بھی لوہے کا جگر چاہئے۔ جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جوامیہ بن خلف کے غلام تھے، انہیں ننگے پیٹھ، عرب کی تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیا جاتا تھا، سینے پر بھاری پتھر رکھ دیئے جاتے، راتوں کو باندھ کر کوڑوں کی بارش کردی جاتی، پھر ان زخموں کو نمک لگا کر اور بھی زخمی کیا جاتا مگر وہ تھے کہ صرف اَحَدٌ اَحَدٌکی رٹ لگائے جاتے تھے۔ حضرت خباب ؓبن ارت کو قمیص اتار کر انگاروں پر لٹا دیا جاتا یہاں تک کہ ان کے جسم کا خون اور پیپ ان انگاروں کو بجھاتا تھا۔ حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں قبول اسلام کے جرم میں نکال دی گئیں۔ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو برچھا مار کر شہید کردیا گیا، حضرت یاسر بھی اسی جرم میں شہید ہوئے۔ صرف غلاموں ہی کو نہیں بلکہ آزاد مرد و عورتیں، شرفاء مکہ جیسے حضرت ابوبکر، عثمان، زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ بھی کفار کے مصائب سے بچ نہ سکے۔ مگر ان تمام مشکلات کے باوجود اسلام دن بدن پھیلتا رہا، مسلمانوں کی تعداد روزبروز بڑھتی رہی، یہ تکلیفیں ان حضرات کو دین اسلام سے ہٹا نہ سکیں۔ یہ حضرات ہوش مند اور باوقار لوگ تھے،جب انہوں نے اسلام کی صداقت پر غور کیا تو انہیں اسلام سوفیصد سچا مذہب نظر آیا۔ بالآخر وہ اس پر ایمان لے آئے۔ پھر کوئی طاقت انہیں اسلام سے ہٹا نہ سکی حالانکہ اس وقت ایمان و اسلام کا اقرار گویا تمام عرب و عجم کو جنگ کی دعوت دینا تھا۔ ایمان لانا کوئی دل لگی نہ تھی بلکہ کفار کے سامنے اپنی جانوں کو لقمہ بنا کر ڈال دینا تھا۔ ان سب کے باوجود ان حضرات کا اسلام پر ثابت قدم رہنا اور اس کی خاطر تکالیف برداشت کرنا اسلام کے حق ہونے کی روشن دلیل ہے۔
۴۔حضور ؐکے دو اہم معجزات :
اللہ تعالیٰ اپنے دین اور نبیوں کی سچائی سمجھانے کیلئے نبیوں کے ذریعہ ایسے کام کرواتا ہے جو اور لوگ کر نہیں سکتے۔ ایسی چیزوں اور کاموں کو معجزہ کہتے ہیں۔ حضور ؐ کے سینکڑوں معجزات تاریخ و سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہیں مگر ہم یہاں اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے صرف دو معجزات کا ذکر کریں گے۔ حضور ؐ کا سب سے بڑا اور زندہ جاوید معجزہ ہے ’’قرآن مجید‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو آپؐ نے ’’قرآن مجید‘‘ کو کلام الہٰی کی حیثیت سے پیش کیا۔ قرآن مجید، اسلام کا بنیادی ماخذ ہے۔ اس وقت کفار نے قرآن مجید کو کلام ربانی ماننے سے انکار کردیا اور کہہ دیا تھا کہ یہ محمد ؐ کا کلام ہے۔ قرآن مجید میں اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے دیا اور تمام فصحاء و بلغائے عرب کو ڈنکے کی چوٹ پر چیلنج کرتے ہوئے کہا :’’اگر تمہیں کچھ تردد ہے اس کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے خاص پر اتارا ہے تو تم اس جیسی ایک سورۃ ہی بنا کر پیش کردو اور اللہ کے علاوہ اپنے مددگاروں کو (جن کو تم اپنا مددگار سمجھتے ہو) بلالو، اگر تم اپنے قول میں سچے ہو‘‘ (سورہ بقرہ) نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دورمبارک میں کوئی ایسا کلام پیش کرسکا اور نہ ہی قیامت تک کوئی ایسا پیش کرسکتا ہے۔
*قرآن مجید کا دوسرا اعجاز یہ ہے کہ انسان چاہے کتنی ہی بار پڑھ لے اس کا دل قرآن سے نہیں بھرتا، مثال کے طور پر ’’سورہ فاتحہ، ہر نماز میں دو ، تین یا چار بار پڑھی جاتی ہے، لیکن آج تک کسی کا دل اس سورۃ کو پڑھنے سے اکتایا نہیں۔ قرآن مجید کے علاوہ دوسری کونسی بھی کتاب ہو، دو سے تین بار پڑھ لیجئے، اس کے بعد پڑھنادل کو گوارہ نہ ہوگا۔ جن کو مطالعہ کا شوق ہے وہ اسے خوب سمجھتے ہیں۔پھر قرآن مجید کا ایک اور اعجاز یہ بھی کہ اس میں کئی طرح کے علوم سمادیئے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں کائنات کی کئی حقیقتوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ کئی سائنسی نکات ایسے بیان کئے گئے کہ چودہ صدیوں کے بعد انسان اپنی تحقیق کے ذریعہ ان تک پہنچ سکا۔’’ہمیں یہ جان کر متعجب نہیں ہونا چاہئے کہ قرآن ہی تمام سائنسوں کا سرچشمہ ہے‘‘۔ (سائنس کوئز ص ۱۰)۔ قرآن مجید کا نواں حصہ مظاہر فطرت پر غوروخوض اور فکر کی براہ راست دعوت دیتا ہے۔ (سائنس کوئز ص ۹)۔ قرآن مجید کا ایک اور اعجاز اس کی قوت تاثیر بھی ہے۔ قرآن مجید کے اندر ایسی تاثر ہے کہ اسی قرآن کو پڑھ کر اسلام کے ایک بڑے شمن ’’عمرؓ‘‘ اسلام لے آئے۔ماضی قریب میں قاری عبدالباسط رحمہ اﷲ کو اللہ نے وہ سوزدل عطا کیا تھا کہ ایک مرتبہ انہوں نے دہریوں کے سامنے قرآن پڑھا، جو عربی نہیں جانتے تھے مگر قرآن مجید کو سن کر وہ خدا کا انکار کرنے والے بھی رو دیئے۔
قرآن مجید کا ایک اور اعجاز ’’اس کا تمام ترمیمات محفوظ رہنا ہے۔ جتنے بھی مذاہب والے ہیں وہ کسی نہ کسی چیز کو خدا کے الفاظ کہتے ہیں۔ جیسے یہود، تورات کو، عیسائی انجیل کو، ہندو ویدوں کو اور سکھ اپنے گردوں کی گرنتھوں کو، خدا کا کلام تصور کرتے ہیں۔ اس میں سے بعض تو سرے سے خدا کا کلام ہی نہیں جیسے سکھوں کی گرنتھ اور بعض تحریفات کاشکار ہوگئیں جیسے تورات، زبور، انجیل وغیرہ۔مگر قرآن مجید نازل ہوکر ساڑھے چودہ سو سال کا عرصہ گذر گیا مگر آج تک تمام طرح کی تحریفات سے پاک و صاف موجود ہے۔
’’سرولیم میور‘‘ جو صوبہ متحدہ کے مشہور لفٹننٹ گورنر تھے۔ متعصب عیسائی ہونے کے باوجود بھی کہ مسلمانوں کی طرف سے ان کی مقدس کتاب انجیل کو تحریف شدہ کہا جاتا ہے، وہ بھی قرآن مجید کو محرف نہ کہہ سکے اور اپنی کتاب ’’لائف آف محمد ؐ‘‘میں لکھ کر گئے ہیں:’’یہ بالکل صحیح اور کامل قرآن ہے اور اس میں ایک حرف کی بھی تحریف نہیں ہوئی۔
’’ہم ایک بڑی مضبوط بنیاد پر دعویٰ کرسکتے ہیں کہ قرآن کی ہر آیت خالص اور غیرمتغیر صورت میں ہے۔ ‘‘(تنبیہ الحائرین ص ۷۳)
قرآن مجید کا اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کسی ادنیٰ تحریف کے بغیر، صحیح سالم موجود رہنا اور ساری دنیا میں اس کے حفاظ کا موجود رہنا یہ بھی اسلام کے حق ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔
(سلسلہ جاری ہے )
**حضور کا دوسرا معجزہ یہ ہیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے بتانے سے بہت سی ہونے والی باتوں کی ان سے وقوع سے پہلے خبر دی اور وہ ہر بحرف پوری ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سراقہ بن حجشم ؓ کے بارے میں پیشن گوئی فرمائی تھی کہ وہ کیسریٰ کے کنگن پہنے گے۔ چنانچہ یہ پیشن گوئی حضرت عمر ؓ کے دورخلافت میں پوری ہوئی۔ ایسی کئی پیشن گوئیاں کتب احادیث و سیر میں موجود ہیں لیکن ہم دو ایسی پیشن گوئیوں کو ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں جس کا تعلق اس دور سے ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی تھی کہ قیامت کے قریب گانے بجانے کا دوردورا ہوگا اور لوگ شراب کا نام بدل کر اس کو پئیں گے۔ یہ دونوں پیشن گوئیاں اس زمانے میں پوری ہوگئیں۔ ہر طرف گانے بجانے کا ماحول ہے بلکہ ہر ایک کی جیب میں پورا گانوں کا سیٹ (فونوں کے اندر) موجود ہے اور لوگ شراب کا نام بدل کر اسے پینے لگے تاکہ اس کا نام ’’شراب‘‘ کی کراہیت ختم ہوجائے۔
ایک ایسے انسان انہوں نے کبھی کوئی علم کسی سے نہیں سیکھا جو چالیس سال تک ایک عام آدمی کی طرح زندگی گذارتا رہا جو ایک ’’امی‘‘ تھا، جن کے بارے میں خود قرآن نے کہا ’’امی‘‘۔ ان کی زبان سے اچانک چالیس سال کے بعد معجزانا کلام کا لوگوں کے سامنے پیش ہونا اور ایسی پیشن گوئیوں کا زبان سے نکلنا کہ وہ ہر بحرف پوری ہوں، یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جبکہ اسے خداوند تعالیٰ اپنے کلام اور علم سے مشرف فرمائے۔
خود قرآن نے کہا ’’ہم نے آپ کو وہ سکھایا جو آپ نہ جانتے تھے۔‘‘
۵۔اسلام کی معتدلانہ تعلیمات :
اسلام کی صداقت کی ایک اہم دلیل اس کی دوسرے مذاہب کے مقابل ’’معتدلانہ اور فطرتانہ تعلیمات ہیں۔ اسلام کے علاوہ جتنے مذاہب ہیں انہوں نے انسان کو ذلیل و رسواء کیا ہے، ان مذاہب نے انسانوں کے سر کو غیراللہ کے سامنے جھکایا ہے۔ کسی نے چاند و سورج کے سامنے، کسی نے دیوی، دیوتاؤں کے آگے، کسی نے بتوں کے آگے، کسی نے انسانی ہستیوں کے آگ اور کسی نے تو جانوروں اور ناقابل بیان چیزوں کے آگے۔ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے انسان کو اس کے مقام سے آگاہ کیا۔ اشرف المخلوقات کا شرف بخشا، مخدوم کائنات کا منصب عطا کیا۔ اسلام نے اسے بتایا کہ عبادت و بندگی اسی ایک اکیلے خدا کے لئے زیبا ہے جس نے اسے اور تمام کائنات کو وجود بخشا، جو اس کا رازق و مالک ہے اور وہی ڈرنے اور محبت کے لائق ہے۔ بقول شاعر: ’’کھیتیاں سرسبز ہیں تیری غذا کے واسطے جانور پیدا کئے تیری بقاء کے واسطے
چاند، سورج اور ستارے ہیں ضیا کے واسطے یہ جہاں تیرے لئے اور تو خدا کے واسطے‘‘
اسلام کی تعلیمات کو سمجھانے کے لئے طویل دفتر درکار ہے، یہ ناکارہ اس کا اہل نہیں، ہم یہاں صرف اسلام کی دو اہم تعلیمات کا ذکر کریں گے۔ ایک کا تعلق عبادت سے ہے اور دوسری کا معاشرت سے۔ (۱).اسلام، خالق و عبد کے تعلق کو کسی بھی موقع ختم نہیں کرتا بلکہ ہر موقع اور ہر لمحہ، اپنے خالق سے لو لگانے کی تعلیم دیتا ہے۔ چند اہم عبادتوں کیلئے وقت مقرر ہیں جیسے نماز اور روزہ، حج وغیرہ لیکن اللہ کی یاد اور دعا کیلئے کوئی وقت مقرر اور ضروری نہیں بلکہ ہر وقت دعا و ذکر جائز ہے۔ بعض موقعوں پر زبان کے ذکر و دعا سے روکا گیا لیکن اس وقت بھی دل سے دعا و ذکر جائز رکھا گیا۔ مثال کے طور پر اذان کے وقت، یا جمعہ کے خطبہ کے وقت وغیرہ۔ اسلام میں جتنی عبادتیں بندوق پر لازم کی گئی ہیں وہ سب بندوں کی زندگی میں حیرت انگیز روحانی انقلاب برپا کردیتی ہیں۔ بشرطیکہ عبادت اس کی روح کے ساتھ کی جائے۔ اور ان عبادتوں سے جہاں روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں، وہیں جسمانی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ ان عبادتوں سے خالق و عبد کے تعلق میں گہراؤ اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔
(۲).دوسری اہم تعلیم جس کا تعلق معاشرت سے ہے، وہ ہے ’’نکاح‘‘ دیگر کئی مذاہب میں نکاح کو روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا گیا۔ خدا اور بندے کے تعلق کو ختم کرنے والا تصور کیا گیا۔ اس کے برعکس بعض مذاہب میں نکاح کی کوئی خاص حد مقرر نہ تھی بلکہ ایک شخص کو کئی کئی بیویاں ہوتی تھی۔ یہ جان کر آپ کو تعجب ہوگا کہ جنوبی ہند کے بعض ہندو سماج میں ایک عورت کا کئی مردوں سے بیک وقت نکاح جائز سمجھا جاتا ہے بلکہ ہندوؤں کی مذہبی کتاب’’مہابھارت‘‘ میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ پانڈوؤں جو پانچ بھائی تھے ان سب کی بیوی، ایک ہی عورت، ایک ہی وقت تھی۔
مگر اسلام افراط اور تفریط سے بچتے ہوئے ایک معتدلانہ راہ دکھاتا ہے۔ وہ نہ تو نکاح کو روحانی ترقی میں رکاوٹ خیال کرتاہ ے نہ ہی نکاح کے معاملے میں ہر طرح کی چھوٹ دیتا ہے بلکہ اسلام میں نکاح کو روحانی ترقی کی راہ میں معاون و مددگار سمجھا گیا تاکہ انسان اس کے ذریعہ اپنی تسکین حاصل کرے جس کا جذبہ خود قدرتِ الہٰی نے اس کے اندر ودیعت کیا ہے ، تاکہ اس کے ذریعہ نسل انسانی کا سلسلہ چلتا رہے۔
مگر اسلام نکاح کی ایک حد مقرر کرتا ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ چار عورتوں سے بیک وقت نکاح کرسکتا ہے وہ بھی اس وقت جب کہ چاروں میں انصاف کی قدرت ہو ورنہ ایک سے زائد نکاح کو گناہ ٹھہراتا ہے۔ اسلام میں نکاح کے تصور کو سمجھنے کیلئے ’’اشرف الجواب‘‘ کا مطالعہ بے حد مفید ہوگا۔
آخری بات : انشاء اللہ اس بحث سے آپ حضرات کے دل کو کسی حد تک انشراحِ قلب حاصل ہوگیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کی صداقت سمجھا دے۔ آخر میں ایک دردمندانہ گذارش ہے کہ دورحاضر میں مسلمانوں خاص کر نوجوانوں کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ کفار اس کام کے لئے ہر ذریعہ اور ہر وسیلہ کا استعمال کررہے ہیں، چاہے وہ تقریر ہو یا تحریر، پریس میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا یا سوشل میڈیا دوحاضر میں مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت ایک بڑا سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اس کام کیلئے ہمیں چند اہم کاموں کو پہلی فرصت میں کرنا ہے۔ ایک تو یہ کہ چھوٹے لڑکوں اور لڑکیوں اور بالغ حضرات اور بڑے لوگوں اور خواتین غرض ہر مسلمان کے لئے دینی تعلیم کا بہترین انتظام فراہم کرنا اور مکاتب قائم کرنا۔ دوم ۔ مسلمانوں کے اندر ایمان و اسلام کی اہمیت و حفاظت کا شعور بیدار کرنا چاہے وہ بیانات کے ذریعہ ہو یا تبلیغ کے ذریعہ یا پھر خانقاہی نظام کے ذریعہ ۔ سوم ۔ مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کرنے کیلئے ہر میڈیا کو استعمال کرنا۔ ایسی کتابیں اور مضامین شائع کئے جائیں جس میں اسلام کو آسان لفظوں میں سمجھایا گیا ہو اور ایسی کتابوں کو مسجدوں اور بیٹھکوں میں سنانے اور سننے کا رواج عام کیا جائے۔ اس سلسلہ میں کم تعلیم یافتہ طبقے کے لئے اور چھوٹے لڑکوں اور نوجوانوں کیلئے ’’اسلام کیا ہے‘‘ اور تعلیم یافتہ اور علمی ذوق رکھنے والوں کیلئے ’’دین شریعت‘‘ کا مطالعہ بے حد مفید ہوگا۔ ایسی ویب سائیٹس تیار کی جائیں جس میں مسلکی تعصب سے بالاتر ہوکر صرف اسلام کی تعلیم و تربیت پر زور دیا گیا ہو اور اسے ماہر علمائے دین کی رہنمائی حاصل ہو۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ نیٹ پر تقریباً 7000 سے زائد اسلام کے نام پر ویب سائیٹس ہیں جو نصاریٰ اسلام کے نام پر اسلام کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ کفار کا جواب ہمیں اس سے زیادہ قوت سے دینا ہے۔ تب ہی ہماری نسل نو کی ایمان کی حفاظت ہوسکتی ہے۔ اللہ ہم سب کی ایمان کی حفاظت فرمائے اور اسلام پر استقامت نصیب فرمائے۔
*****
Comments